Sunday, August 23, 2009

تقسیم ہند، پاکستان میں متنازعہ کتابیں اور ردعمل 

 
بانیء پاکستان محمد علی جناح کی ایک تاریخی تصویر
بھارت کے ممتاز سیاسی رہنما جسونت سنگھ کی کتاب میں محمد علی جناح کے حوالے سے درج کئے جانے والے ستائشی کلمات پر بھارت اور پاکستان دونوں جانب بحث و مباحثے جاری ہیں۔
 


بھارتی ریاست گجرات میں اس کتاب کی فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ جسوت سنگھ کو ان کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اس کتاب کے بعض اقتباسات کے مطابق اس کتاب میں جسوت سنگھ نے کہا ہے کہ قائد اعظم ایک قوم پرست رہنما تھے اور وہ ہندوستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے اور جواہر لال نہرو بھی تقسیم ہند کے ذمہ دار ہیں۔

 

جسونت سنگھ کی طرح پاکستان میں بھی کئی مصنفین ایسے ہیں جنہوں نے قومی اور سرکاری موقف جسونت سنگھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے بے دخل کر دیا گیا ہے
سے انحراف کرتے ہوئے تقسیم ہند کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کئے ہیں۔ جسونت سنگھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے بے دخل کر دیا گیا ہے

 

ممتاز محقق ڈاکٹر صفدر محمود نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان میں ایسی بہت سی کتابیں چھپی ہیں جہاں آزادی اظہار کے نام پر پاکستان، تحریک پاکستان اور بانی پاکستان کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔ ان کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ولی خان کی کتاب ’’حقائق حقائق ہیں‘‘ میں تقسیم ہند کے حوالے سے پاکستان کے قومی موقف کے خلاف نقطہ نظر بیان کیاگیا ہے۔ لیکن ان کے مطابق کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ولی خان کی کتاب پر پابندی لگائی گئی ہو یا پھر انہیں ایسے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہو جیسا کہ جسونت سنگھ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ بقول ان کے پاکستان میں یہ ضرور ہوا ہے کہ ولی خان کے مقابلے میں کئی مصنفین نے اپنا نقظہ نظر ضرور پیش کیا ہے۔

 

ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی عائشہ جلال کی کتاب ’’ دا سول سپوکس مین‘‘ میں ا نہوں نے تحریک پاکستان کے حوالے سے بہت سی ایسی متنازعہ باتیں کہی ہیں، جن پر پاکستان کے بیشتر لوگوں کو شدید اعتراضات ہیں لیکن اس کتاب کے خلاف عالمانہ انداز میں اخبارات اور جرائد کے اندر لکھا تو گیا ہے لیکن اس پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عائشہ جلال کو اس سال پاکستان کی حکومت نے ستارہ امتیاز دیا ہے۔ 

چند برس قبل ایل کے اڈوانی کو بھی جناح کے حوالے سے تعریفی کلمات لکھنے پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا
 چند برس قبل ایل کے اڈوانی کو بھی جناح کے حوالے سے تعریفی کلمات لکھنے پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا

ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق آج بھارت میں جسونت سنگھ کی جن باتوں پر احتجاج کیا جا رہا ہے، وہ بات سو فیصد مولانا ابو لکلام آزاد نے اپنی کتاب انڈیا ونز فریڈم میں بیس سال پہلے کہی تھی۔ یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ یہ کتاب آج بھی پاکستان میں دستیاب ہے اور علمی حلقوں میں اس سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ضیا ء الحق دور میں Stanlly Wolpert نامی ایک مصنف نے ’’جناح آف پاکستان‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں ایک جگہ پرقائد اعظم کے حوالے سے بعض قابل اعتراض جملے تحریر کئے گئے تھے۔ ان کے مطابق ضیا ء الحق دور میں اس کتاب پر پاکستان میں پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن یہ مطالبہ نہیں مانا گیا۔ 

 

پاکستان میں تقسیم ہند کے حوالے سے لکھی جانے والی متنازعہ کتابوں کے خلاف عوامی سطح پر زیادہ شدید احتجاجی رد عمل دیکھنے میں نہیں آتا رہا ہے۔ پاک بھارت تحریک پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز ماہر سیاسیات پروفیسر ڈاکٹر حسن رضوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عائشہ جلال کی حالیہ کتاب پر ردِ عمل دیکھنے میں آیا تھا ۔ اس کتاب میں عائشہ جلال کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ قائد اعظم پاکستان بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ پاکستان بنانے کا مطالبہ انہوں نے ایک بارگیننگ کی حکمتِ عملی کے تحت کیا تھا۔ اس نقطہ نظر کے خلاف پاکستان میں کئی لوگوں نے اعتراض کیا لیکن عائشہ جلال کی کتاب ’’دا سول سپوکس مین‘‘پاکستان میں موجود ہے اور پاکستان کے صحافتی اور تحقیق حلقے اس کتاب سے پاکستان میں جسونت سنگھ کی کتاب کا انتظار کیا جا رہا ہے
استفادہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں جسونت سنگھ کی کتاب کا انتظار کیا جا رہا ہے

 

ڈاکٹر عسکری کے مطابق پاکستان تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں بھی انہوں نے بہت سی غیر روائیتی باتیں کی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین لڑی جانے والے جنگوں کو پاکستان نے شروع کیا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی کتابیں ہیں، جن میں ایسے نقطہ ہائے نظر پیش کئے گئے ہیں جو پاکستان کی قومی پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر مبارک علی نے تحریک آزادی کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی بہت منفرد ہے اور اس پر کافی اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان کے معاملے میں بھی وہ شدید ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا جو اس وقت بھارت میں دیکھا جا رہا ہے۔

 

ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق اس بات کا اندازہ لگانا ابھی آسان نہیں ہے کہ جسوت سنگھ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد سیاست دانوں کی طرف سے اختلافی امور پر کتابیں لکھنے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہو گی یا اس سے اس رجحان کو فروغ ملے گا۔ ان کے مطابق سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقسیم ہند کے باسٹھ سال بعد پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لینا چاہےے اور اپنی تاریخ کے غیر جانبدارانہ تجزیے سے قومی معاملات کو سمجھنے کی کوشش کر نی چاہیے اور اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہےے کہ باسٹھ سال پہلے لوگوں نے اس وقت کی صورتحال کو کس انداز میں دیکھا تھا اور آج دنیا ان امور کو کس انداز میں دیکھ رہی ہے۔ 

 

ایک پاکستانی مورخ ڈاکٹر مبارک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں متنازعہ تحریروں کے خلاف زیادہ احتجاج سامنے نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متنازعے امور پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں آزادانہ طور پر تحریر لکھنا آج بھی آسان نہیں ہے۔ ان کے مطابق کیونکہ پاکستان کو ایک نظریاتی ملک کہا جاتا ہے لہذا توقع یہ رکھی جاتی ہے کہ تاریخ کو نظریے کے فریم ورک میں لکھا جائے اگر کوئی الگ سے کچھ ہٹ کر لکھنا چاہتا ہے تو اس کو بغاوت سمجھا جاتا ہے، اس مصنف کو ملک دشمن اور بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔

 

پاکستان میں کتابوں کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگوں کا کہنا ہے کہ جسوت سنگھ کے خیالات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کی متنازعہ حیثیت اس کتاب کی فروخت کو چار چاند لگانے کا باعث بنے گی۔ پاکستان کے بک سٹالوں پر اس کتاب کا انتظار جاری ہے اور لوگ اس کتاب کے بارے میں پوچھنے کے لئے مسلسل آ رہے ہیں۔ یہ کتاب اگلے چند دنوں میں فروخت کے لئے مارکیٹ میں آنے والی ہے۔